گھر میں آٹا موجود نہیں، پکانے کے لیے سبزی موجود نہیں، صحن میں کھڑی موٹر سائیکل جس میں پٹرول نہیں تھا۔ اس کے نیچے بجلی کا بل پڑا ہوا تھا جو کہ 70,000 کا تھا۔ اُف میرے خدا کھانے کے لیے روٹی نہیں پہننے کے لیے کپڑے نہیں، رہنے کے لیے چھت اپنی نہیں۔ اے خدا تو ہی بتا یہ غریب کس در کیلئے بنائے ہیں۔
..... خود کو دلدل میں پھنسا دیکھ کر مثبت سوچنے کا بھی دل نہیں کرتا۔ آسمان کی طرف دیکھوں تو خالی، زمین کی طرف دیکھوں تو پھٹتی نہیں جو غریب کو اپنے اندر سمو لے، زمین بھی اپنے اندر تب سموتی ہے جب جسم سے جان نکلی ہو۔ بھوک سے بچوں کے رونے کی آواز کسی بانسری کے ساز سے کم نہیں بجتی اشرافیہ کے کانوں میں۔
مہینہ گزرتے ہی ایک آفت جو بجلی کے بل کی صورت میں گرتی ہے اس سے اگر کوئی محفوظ ہے تو وہ ہیں واپڈا ملازمین اور افسران بالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غریب مزدور اور محنت کش کسی کھاتے میں نہیں آتے۔ جن کی تنخواہیں زیادہ ہیں ان کے بجلی کے بل بھی فری ہیں اور جو حالات کی چکی میں پس رہے ہیں ان کو ٹیکس کے ساتھ بجلی کے بوجھ تلے اس قدر دبایا جاتا ہے کہ وہ اٹھنے کے قابل نہیں رہتے۔ بجلی کے بلوں نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے، بل دیکھ کر گمان ہوتا ہے یہ بجلی کے بل نہیں موت کا پروانہ ہیں۔
بجلی کے ہائے وولٹیج تاروں میں لٹکنے کا دل کرتا ہے، ننگے تاروں والے کھمبوں والا لائن ٹرانسمیشن سسٹم خستہ حالی کا شکار بجلی کمپنیوں میں کرپشن کی داستان گوئی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں پانچویں موسم کے دوران کیے جانیوالے وعدے جس میں 300 یونٹ اور 200 یونٹ فری دینے تھے۔ اب اسطرح بھولے ہیں جیسے کبھی بولا ہی نہیں ہو۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز جو لگاتار وعدوں پر وعدے کیے جا رہی ہیں مگر شاید وہ یہ بھول گئی ہیں کہ وعدوں سے پیٹ نہیں بھرتے، روٹی سے بھرتے ہیں۔
اسمبلی میں بیٹھے میرے نمائندے جو میرے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں ان سے میرا سوال ہے 200 یونٹ پر بل آتا ہے 3083 روپے، پھر 201 یونٹ پر 8154 روپے کیسے ہو گیا؟ یونٹ چاہے جتنی مرضی استعمال کیوں نہ ہوں ایک قیمت کیوں نہیں ہے؟ اس حساب سے ایک اضافی یونٹ 5071 روپے کا پڑا۔ اس کرپشن اور بدعنوانی کا جواب کون دے گا؟ یہ 5071 روپے کس کی جیب میں جارہے ہیں؟۔
میرے پیارے ملک پاکستان میں حالات یہ ہیں کہ بل جمع کروانے کیلئے عورتوں کے زیورات بیچے جا رہے ہیں۔ بجلی کے بل یعنی موت کے پروانوں میں مختلف قسم کے ٹیکس اس طبقے پر لگائے جاتے ہیں جو ایک ایک قدم اٹھانے پر بھی ٹیکس دیتے ہیں۔ سب سے پہلے میٹر رینٹ جب میٹر لگوانے کیلئے بجلی کمپنیوں کو اکھٹے پیسے دیئے جاتے ہیں تو پھر کس بات کا میٹر رینٹ؟، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، ایف سی سرچارج، جنرل سیل ٹیکس اور پرائس ایڈجسٹمنٹ وغیرہ وغیرہ آخر کیوں یہ بوجھ صرف تنخواہ دار طبقے پر لگایا جاتا ہے؟۔
میرے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا وہاں پر لوگ مساجد کو باقاعدہ تالے لگا کر ویڈیوز اپلوڈ کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ہم بجلی کا بل نہیں دے سکتے اور باقاعدہ سے ایک مولوی صاحب نے یہ کہا ہے 166 ہزار مسجد کا بل آیا ہے اور پورا محلہ مسجد کا بل دیتا تھا لیکن اب سب سے اکھٹا کر کے بھی بل نہیں دے سکتے۔ یہ بل اتنا زیادہ ہے تو ہمارے پاس آپشن یہ ہے ہم تالا لگا دیں، گھروں میں نماز پڑھیں اب مسجد میں اذان بھی نہیں ہو گی۔ کیونکہ ہم برداشت نہیں کر سکتے یہ ہماری صورتحال بن گئی ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔
میں قسم اٹھا کر یہ لکھتی ہوں کہ بہت سارے لوگوں نے یہ کہا ہے ہم اپنے بچوں کو بیچنے کیلئے تیار ہیں۔ اللّٰہ اکبر!!!، بہت سارے لوگوں نے کہا ہے ہم گھر اس وقت جاتے ہیں جب بیوی بچے سو چکے ہوتے ہیں، گھروں کے باہر یا سیڑھیوں پر بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ جب گھر جاتے ہیں تو بل آیا ہوا ہوتا ہے، 60 ، 70 ہزار۔ ایک بندہ کہتا ہے میرے گھر میں صرف 2 پنکھے چلتے ہیں 37 ہزار بجلی کا بل آیا ہوا ہے۔
طلعت حسین صاحب لکھتے ہیں ہمارے پاس واحد حل یہ ہے کہ جو بچا ہے اسے لیکر اس ملک سے نکل جائیں۔ اتنے ٹیکسز دنیا بھر میں نہیں ہیں، یہودی اپنے ملک میں ٹیکس نہیں لگاتے جتنے پاکستان میں ٹیکس لگا دیئے گئے ہیں، مساجد میں جہاں سے اللّٰہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہے وہ بھی بند کر کے رکھ دی ہیں۔
پنجاب حکومت سے ایک معصومانہ سوال ہے وہ یہ کہ جو پنجاب کے خاندانوں کو بجلی کا بل جو نہیں آنا تھا۔ وہ کب سے نہیں آئے گا؟، دیکھنا یہ بھی ہے کہ کرپشن اور مہنگائی کا ڈھول کون بجائے گا۔
No comments:
Post a Comment